حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کراچی / شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ ناظر عباس تقوی نے علامہ نثار قلندری،علامہ رضی حیدر، علامہ شبیر میثمی،علامہ کامران عابدی، شمس الحسن شمسی و دیگر کے ہمراہ عزا خانے زہرا کے باہر ہنگامی پر یس کانفر نس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں محرم الحرام کو عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے اور نواسہ رسول امام حسین اور ان کے اصحاب کی قربانی کو بیان کیا جاتا ہے کہ امام حسین نے اسلام کی بقا اور شریعت کے تحفظ کے لیے اپنے پورے خاندان کے ساتھ قربانی دے کر دین اسلام کو بچایا پاکستان میں بھی عزاداری امام حسین کو شیعہ اور سنی انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں اور ان کی یاد میں علم ذوالجناح سبیل امام حسین لگا کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اللہ مگر گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں عزاداری سید الشہداء کو روکنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں جس میں جلوسوں کے راستے میں مداخلت مجالس کو چار دیواری میں محدود کرنے کے ساتھ ساتھ سبیل امام حسین لگانے پر مقدمات قائم کیے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان میں تشیع کو دیوار سے لگایا جائے۔
عزاداری امام حسین کسی فرقے کسی مسلک یا مذہب کے خلاف نہیں بلکہ یہ امام عالی مقام پر ہونے والے مظالم کو بے نقاب کرنے کے لئے ہے پاکستان میں بسنے والے شیعہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ جس ملک کے آئین میں اقلیتوں کو اپنے عقیدے کے اظہار کی تو اجازت ہے مگر پاکستان میں شیعہ عقائد کے اظہار پر پابندی ہو شیعہ پاکستان میں اقلیت میں نہیں بلکہ اس ملک کا ایک طاقتور حصہ ہیں اس طرح کی متعصبانہ پالیسیوں سے ہمیں اپنے عقیدے کے اظہار سے روکا نہیں جا سکتا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے حکومت پولیس کے ذریعے عزاداری کو روکنے کی کوششیں کر رہی ہے گزشتہ سال سینکڑوں کی تعداد میں پورے پاکستان میں مجالس و جلوس پر مقدمات قائم کرنا سراسر ناانصافی ہے پنجاب میں گھروں پر منعقدہ مجالس پر مقدمات قائم کرنا حکومت پنجاب کی بزدلانہ کارروائی ہے ہم اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں سکیورٹی کے دعوے کرنے والے ادارے بہاولنگر میں ہونے والے بم دھماکے میں ناکام نظر ہے حکومت پنجاب دہشتگردوں کو روکنے میں ناکام جب کے عزاداری کو روکنے میں ریاستی مشینری کا استعمال حیران کن ہیں جھنگ مظفرگڑھ لاہور پنڈی گجرات اور پنجاب کے اکثر شہروں میں پولیس گردی دیکھی گئی کیا وزیراعظم پاکستان اس ریاست مدینہ کی بات کرتے تھے جہاں نواسہ رسول کے ذکر پر پابندی ہو اس کے ساتھ ساتھ صوبائی سندھ میں پہلی محرم سے لے کر آج تک سندھ کے مختلف اضلاع میدان جنگ بنے رہے اور جو کچھ بھی ہوا یہ ساری ذمہ داری وزیر اعلی سندھ آئی جی سندھ کے کندھوں پر آتی ہے۔
پہلی محرم سے دس محرم تک مسلسل سندھ کے مختلف اضلاع میں چند مٹھی بھر شر پسند شرپسندی کرتے رہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی میں چیلنج کرتا ہوں کوئی ایک جگہ ثابت کردوں کہ جہاں عزاداروں نے کسی کے خلاف کوئی بات کی ہو گھوٹکی شکارپور خیرپور نوشہروفروز لاڑکانہ دادو جامشورو میرپورخاص کو حیدر آباد میدان جنگ بنایا گیا عباس ٹاون کراچی میں سبیل پر حملہ اور منگوپیر میں عزاداروں پر گولیاں چلائی گئیں ان تمام کاروائیوں میں چند تکفیری سوچ رکھنے والے چند شرپسند پولیس کی موجودگی میں عزاداروں کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے پولیس شر پسندوں کو روکنے کے بجائے بیلنس پالیسی پر مقدمات قائم کرتی رہی اور ظالم و مظلوم کو ایک ہی کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا گیا اگر حکومت سندھ کا یہی رویہ رہا تو بہت جلد ہم عوام کو سڑکوں پر لائیں گے پھر تمام حالات کے ذمہ دار سی ایم سندھ ہونگے ابھی محرم کا آغاز ہوا ہے لہذا جتنی ایف آئی آر کاٹی گئی ہیں ان کو واپس لیا جائے نہ لینے کی صورت میں ہم احتجاجی ماتم کرتے ہوئے وزیر اعلی ہاؤس پر دھرنا دینگے اور اس دھرنے کی تاریخ کا اعلان جلد کریں گے۔
آپ کا تبصرہ